ایک خیرخواہانہ تحریر
✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)
ناظرین کرام! گذشتہ دو تین سالوں سے ہمارے پاس میاں بیوی کے جنسی اور اندرونی تعلقات سے متعلق دسیوں ایسے سوالات آئے ہیں کہ بندہ سوچ میں پڑ گیا ہے کہ اسے اپنے مخصوص انداز میں فتوی کی شکل میں پیش کیا جائے؟ یا پھر کوئی تحریر لکھی جائے؟ چنانچہ دل میں یہی بات آرہی ہے اور ساتھیوں سے مشورہ بھی کیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ اس موضوع پر ایک مفصل، مدلل، آسان اور سنجیدہ تحریر لکھ دی جائے تاکہ تمام باتیں سامنے آجائیں اور کوئی پہلو تشنہ نہ رہے۔ لہٰذا اس تحریر کو شادی شدہ افراد ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
جو معاملات ہمارے سامنے آرہے ہیں، ان میں ایک سنگین مسئلہ Oral Sex کا ہے، یعنی مرد اپنے عضو تناسُل کو بیوی کے منہ میں ڈال کر اپنی جنسی خواہش پوری کرنا چاہتا ہے، جو بلاشبہ بدتہذیبی، خلافِ فطرت اور شرعاً سخت مکروہ عمل ہے۔ لیکن یہاں بات کراہت پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ جب یہ مکروہ فعل انجام دیا جائے گا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ شرمگاہوں سے نکلنے والی رطوبت جو کہ ناپاک ہوتی ہے منہ میں جائے گی، اور جب منہ میں جائے گی تو ظاہر ہے کہ ایک پاک عضو کو ناپاک کرنے اور ناپاکی کے حلق کے نیچے اترنے سے یہ فعلِ حرام ہوگیا۔ اور فعل حرام کا ارتکاب سخت گناہ اور موجبِ عذاب وعقاب ہے، جو بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوگا۔ نیز طبی نقطۂ نظر سے بھی اس فعل کے بڑے نقصانات ہیں، لہٰذا اس بیہودہ فعل سے اجتناب میں ہی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔
دوسرا معاملہ anal sex کا ہے، یعنی بعض شوہر اپنی بیویوں کے ساتھ پیچھے کے راستے سے اپنی خواہش پوری کرنا چاہتے ہیں، جبکہ یہ عمل عورت کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور طبی لحاظ سے مرد وعورت دونوں کے لئے سخت نقصان دہ ہے، اور شرعاً ناجائز، حرام اور ملعون عمل ہے جس پر احادیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ ملعون ہے وہ شخص جو اپنی بیوی سے پیچھے کے راستے سے ہم بستری کرے۔ (ابوداؤد)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں جو کسی مرد یا عورت کے ساتھ پیچھے کے راستے سے بد فعلی کرے۔ (ترمذی)
معلوم ہوا کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی پر ایسی سنگین زیادتی کرتا ہے تو اسے فوراً توبہ و استغفار کرکے اس سے باز آجانا چاہیے، اگر وہ باز نہیں آتا اور بڑوں کے سمجھانے کے بعد بھی اس ملعون فعل سے نہیں رکتا تو اس کی بیوی کو اختیار ہے کہ وہ اس سے خلع یا طلاق کا مطالبہ کرے۔
تیسرا معاملہ کثرتِ جماع کا ہے، جو معاملات ہمارے پاس آئے ہیں، ان میں شوہروں کی ایک سنگین غلطی اور حرام کام یہ ہے کہ وہ روزآنہ فحش فلمیں دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر شہوت غالب آجاتی ہے اور وہ روزآنہ بیوی کے ساتھ صحبت کرنا چاہتے ہیں، اور بیوی کی طبیعت ٹھیک ہے، نہیں ہے؟ اس کا موڈ ہے، نہیں ہے؟ گھر کے حالات اس کی اجازت دیتے ہیں، نہیں دیتے ہیں؟ ان کو ان سب سے کوئی مطلب نہیں ہے، انہیں بس اپنی دو پانچ منٹ کی لذت کے لیے بیوی کو ہراساں کرنا ہے۔ ایسے لوگوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے بھی اپنے جذبات ہوتے ہیں، وہ بھی آپ کی طرح انسان ہے، کوئی مشین نہیں ہے کہ جب چاہیں اس سے فائدہ اٹھالیں، اپنا کام نکال لیں اور ہٹ جائیں، اس کی جائز خواہشات کی رعایت کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔
اس طرح کے معاملات میں مزید افسوس اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا تمام کاموں کو کرنے کے لیے شوہر اپنی بیویوں کو طلاق دینے یا ایک اور نکاح کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اور بعض گالی گلوچ اور سخت ناراضگی کا اظہار کرکے بیوی کو ذہنی طور پر سخت ہراساں کرتے ہیں۔ اور بعض احمق بلکہ ضرورت سے زیادہ عقل مند افراد تو یہ تک کہہ دیتے ہیں کہ یہ شوہر کی نافرمانی ہے جس پر تجھے گناہ بھی ملے گا اور فرشتے لعنت بھی کریں گے۔ جبکہ پہلے دو عمل کا حکم دینا تو شوہر کے لیے جائز ہی نہیں ہے۔ لہٰذا بیوی پر بھی اس کا ماننا ضروری نہیں ہے۔ اور روزآنہ صحبت کے لیے بھی بیوی کے مزاج اور سہولت کا خیال رکھنا چاہیے۔ کیونکہ ہمارے یہاں چھوٹے چھوٹے گھر اور جوائنٹ فیملی کی وجہ سے عورتوں کا غسل کرنا اور فجر سے پہلے غسل کرنا بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔
پہلی دونوں صورت تو میاں بیوی کی باہمی رضا مندی کے بغیر بھی وہی حکم رہے جو اوپر لکھا گیا ہے۔ تیسری صورت میں اگر بیوی کی رضامندی ہو اور بظاہر اسے کوئی پریشانی اور تکلیف کا سامنا بھی نہ ہو تب بھی احتیاط اسی میں ہے کہ روزآنہ صحبت کرنے سے اجتناب کیا جائے، کیونکہ کثرت جماع بہرحال کوئی مفید چیز نہیں ہے بلکہ یہ ذہنی اور جسمانی دونوں لحاظ سے نقصان کا سبب ہے۔ اور جب آدمی روزآنہ اسی میں لگا رہے گا تو بلاشبہ نفل عبادات بلکہ فرائض میں بھی غفلت برتے گا، کیونکہ روزآنہ خود اس کا اور بیوی کا فجر سے پہلے اٹھ کر غسل کرنا اور باجماعت نماز ادا کرنا یہ انتہائی مشکل امر ہے۔ اور فجر کی نماز ترک کرکے اسی طرح ناپاکی حالت میں صبح کردینا تو کبیرہ گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ منحوسیت اور بے برکتی کا سبب بھی ہے جس کی وجہ سے گھروں میں جھگڑے اور معاشی تنگی پیدا ہوتی ہے۔
اگر کسی کو بہت زیادہ شہوت ہوتو ہفتے میں دو مرتبہ صحبت کیا کرے، اور اس میں بھی بیوی کی طبیعت اور مزاج کا خیال رکھے۔ اسی میں دونوں کی بہتری ہے۔ فحش فلموں سے مکمل طور پر دور رہے، سوتے وقت کے مسنون اذکار اور دعاؤں کا اہتمام کرے۔ ورنہ انجام کار یہ ہوگا کہ فحش فلمیں دیکھنے اور روزآنہ صحبت کی وجہ سے بیوی کی تو عادت بن جائے گی، لیکن مرد دن بدن کمزور ہوتا جائے گا، کیونکہ صحبت میں مرد کی طاقت زیادہ ضائع ہوتی ہے، اور پھر ایک وقت ایسا آئے گا جب بیوی کو ضرورت محسوس ہوگی تو یہ اپنے اندر اس کی ضرورت پوری کرنے کی طاقت نہیں پائے گا۔ لہٰذا ایسا افسوسناک اور تشویشناک مرحلہ آنے سے پہلے پہلے اپنے آپ کی اصلاح کرلے۔
امید ہے کہ سنجیدہ، سمجھدار اور نصیحت قبول کرنے والوں کے لئے اس موضوع پر اتنی باتیں کافی شافی ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین سے متصل خوشگوار اور صحت و عافیت والی ازدواجی زندگی عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین